کراچی کی مشہور، پشاوری آئسکریم
میں کراچی کبھی نہیں گیا۔ جو گئے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ آپ وہاں بیزار نہیں ہوتے۔ یہ سن کر ہی میرے ہول اٹھنے لگتے ہیں کہ مولا ایسی جگہ پر کوئی کیسے بسر کرے جہاں فراغت سے بیزار ہونے کا موقع ہی میسر نہ آئے؟۔
کراچی سے میری بچپن سے واقفیت ہے، کیوں نہ ہوتی کہ ملک کا کہتے ہیں سب سے بڑا شہر ہے۔ کراچی میرے آبائی قصبے سے بہت دور ہے اور بچپن میں جب گھر کے باہر کچے کوٹھوں کی منڈیروں پر کھلونا ٹرک دوڑایا کرتے تھے تو گھر کے دروازے کے عین دائیں طرف جو گھیردار ٹرکوں کا ٹرمینل بنایا ہوا تھا وہاں سے روانہ ہوتے ہوئے دوسرے کو بتایا کرتے تھے کہ، "جی کراچی جا رہے ہیں، مال پہنچانے۔۔۔ ہنگ ہنگ، چھوٹے ٹئیر دے نٹ بولٹ چیک کر لے کہ نئیں؟"۔ تب، کراچی منڈیروں پر کم از کم چار پھیروں کے بعد گھر کے دروازے سے دور، تیسرے کوٹھے کی منڈیر پر بالکل کونے پر ایک ویسا ہی اڈہ ہوا کرتا تھا جیسا گھر کے دروازے کے پاس بنایا گیا تھا، اپنے تئیں ہم نے دور تعمیر کیا تھا کہ کراچی کا گماں رہے۔ وہاں کسی کا کوئی راج نہیں تھا، جو چاہے چلا جاتا تھا اور جتنی دیر چاہے وہاں بیٹھا رہتا، مال پہنچاتا اور پھر سے واپس اپنے گھر کے دروازے پر۔ میں سنوں! سن سینتالیس کے بعد اصل کراچی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ظلم ہوا ہے۔ اصل آبادی کا بڑا حصہ کراچی بدر ہوا، اور اس کے بعد جس کا جیسے جی چاہا ویسے ٹانگیں پسار کر وہاں پڑا رہا، جی میں آیا تو اس کی شکل بگاڑ دی اور دل چاہا تو اپنا کر وہاں بھانت بھانت کا رش بنا ڈالا۔
جب تھوڑی عمر کو پہنچے، تو کراچی کچھ اور تھا۔ گاہے بگاہے، مہینے دو مہینے میں سننے میں آتا کہ "فلاں کا بیٹا، گھر سے دو ہزار روپے لے کر موئے فلاں دوست کے ساتھ کراچی بھاگ گیا"۔ فلاں کی ماں درمیان میں بیٹھی رو رہی ہوتی تھی اور محلے کی عورتیں پُرسا دینے کو اس کے ارد گرد جمع رہتیں۔ دوسرے فلاں جو اس فلاں کا دوست ہے، اس کے گھر میں بھی کم و بیش ایسی ہی صورتحال ہوتی تھی، فرق صرف اتنا رہتا کہ اس فلاں کی ماں، اُس دوست کو اور اُس دوست کی ماں، اس فلاں کو کوسنے دیتی کہ، "میرا بیٹا بگاڑ دیا"۔ باپ بہرحال دونوں کے، پی سی او سے کراچی میں تعلق داروں کو اطلاع دے کر، اکٹھے کراچی جانے کی تیاری کر رہے ہوتے تھے کہ جائیں اور فرزندوں کو کان سے پکڑ کر واپس لائیں۔ تب مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ دونوں فلاں رات اندھیرے گھر سے بھاگے تھے تو ان کے ماں باپ کو کس نے اطلاع دی کہ وہ کراچی ہی بھاگے ہیں؟ بعد میں معلوم ہوا کہ بھاگنے والے فلانوں کو کراچی سے ہی آشنائی تھی۔ وہ بلوغت کو پہنچنے پہنچتے کراچی کا زکر اتنی بار سن رکھتے تھے کہ بھاگنے کو انھیں کچھ اور جگہ سوجھتی ہی نہ تھی۔ اب دیکھوں تو لگتا ہے کہ کراچی پر اصل قہر ہی یہ ٹوٹا کہ سن سینتالیس کے بعد جس کو گھر سے تنگی ہوئی، مہاجر ہوا یا خواہ مخواہ بھی دل چاہا تو پاؤں پسارنے کو کراچی کے علاوہ کوئی جگہ سوجھی ہی نہیں؟ دوسری بات، بقول ماؤں کے، جو بگڑ جاتا تھا وہ کراچی پہنچتا رہا اور وہاں پتہ نہیں کیا کرتا رہا ہو؟ میں سوچوں کہ بیٹے جب ماؤں کے بس میں نہ رہیں، تو وہ کچھ بھی کریں، جیسا کراچی میں کرتا دیکھتے ہیں۔۔۔ نہیں؟
جب لڑکپن کو پہنچے تو پہلی بار مہاجر کا نام سنا۔ تب ہمارے یہاں مہاجر کشمیر سے آیا کرتے تھے، افغانستان والوں کو چھوٹ حاصل تھی کہ انھیں کابلی یا افغانی ہی کہتے تھے یا شائد فرق ملحوظ خاطر رکھنا مقصود ہوتا ہو۔ ایسا بھی تو ممکن تھا کہ افغانیوں کو اب مہاجر اس لیے نہیں کہتے تھے کہ وہ اتنا عرصہ یہاں رہے کہ مہاجر سے کابلی اور اب آہستہ آہستہ پاکستانی ہوتے جا رہے تھے۔ کسی نے اسی دور میں بتایا کہ بی بی سی پر نشر ہوا ہے کہ کراچی میں خاصہ دنگا ہوا ہے اور فوج نے چُن چُن کر مہاجروں میں سے وہ مہاجر مارے ہیں جو تخریب کاری میں ملوث تھے۔ سمجھ ہمیں کچھ نہیں لگی اور ہم عرصہ تک یہ سوچتے رہے کہ کشمیر سے لوگ مہاجر اس لیے ہوئے کہ انھیں وہاں امن نصیب نہیں تھا، وہاں ان پر ظلم ہوتا تھا اور وہاں ان لوگوں کو آزادی نہیں تھی۔ کراچی میں ایسا کیا ہوا کہ مہاجروں کو امن اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے کی ضرورت پیش آ گئی؟ اور ہم یہ بھی سوچتے کہ ہمارے یہاں تو مہاجر پہلے افغانی ہوئے اور اب آہستہ آہستہ پاکستانی ہوتے جا رہے ہیں، اور اسی طرح کشمیر سے جو آئے ہیں وہ ابھی بھی مہاجر ہی ہیں مگر کچھ عرصے بعد وہ کشمیری اور بالاخر پاکستانی بن ہی جائیں گی، کراچی کے مہاجر پچھلے پچاس پچپن سالوں سے مہاجر ہی کیوں ہیں؟
ابا نے تب ہمیں اس بارے زیادہ سوچنے کا موقع نہیں دیا اور ہمیں پڑھائی میں ایسا مصروف کر دیا کہ ہمیں اپنا آپ مہاجر مہاجر لگنے لگا۔ تب، مہاجر کا مطلب ہم مظلومیت سے تعبیر کیا کرتے تھے۔
ابا نے تب ہمیں اس بارے زیادہ سوچنے کا موقع نہیں دیا اور ہمیں پڑھائی میں ایسا مصروف کر دیا کہ ہمیں اپنا آپ مہاجر مہاجر لگنے لگا۔ تب، مہاجر کا مطلب ہم مظلومیت سے تعبیر کیا کرتے تھے۔
سن نوے سے لے کر دو ہزار دو تک، ہمیں اپنا ہوش نہ رہا تو کراچی بارے کیا غور کرتے۔ کراچی ہمارے خیالات، زندگی وغیرہ سے باہر ہو گیا اور دل و دماغ پر گھر والوں نے سوائے پڑھائی کے کچھ سوار ہونے نہیں دیا، وہ تو جب یونیورسٹی پہنچے اور اپنے بل پر ہوئے تو اس لکھائی پڑھائی کے کام کو آہستہ آہستہ کر کے اپنے دل و دماغ سے اتارا، تب دوسری مصروفیات کے ساتھ ساتھ کراچی پھر سے ہماری بحثوں میں شامل حال رہنے لگا۔ پہلی بات جو ہمیں تب کراچی بارے معلوم ہوئی وہ تھی کہ ڈیرہ اسماعیل خان، جہاں ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پہنچے تھے وہاں سے کراچی صرف بارہ سو کلو میٹر دور ہے، جبکہ مانسہرہ سے یہ لگ بھگ سترہ سو کلو میٹر دور ہوا کرتا تھا۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے اس قدر نزدیکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تب جوق در جوق قبائلی علاقے کے باسیوں نے کراچی کا رخ کیا کہ قبائلی علاقوں میں کافی مڈھ بھیڑ چل رہی تھی۔ان کے دیکھا دیکھی، اب کے مہاجر صرف یہیں سے نہیں بلکہ سوات، باجوڑ، خیبر، مہمند، اورکزئی اور مالاکنڈ سے بھی کراچی پہنچنا شروع ہو گئے اور سننے میں آیا کہ کراچی کے اصل مہاجر، نئے مہاجروں کو قبول کرنے میں کچھ پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ کراچی تو تب بھی اور اب بھی ویسا ہی وسیع ہے مگر یہاں کے باسی کراچی میں اتنا عرصہ رہنے کے باوجود اپنے دلوں میں کراچی جیسی وسعت پیدا نہ کر سکے۔ تب دیکھنے میں آیا کہ جو قبائلی اور باقی کے اب کے مہاجر بن کر گئے تھے، وہ بھی کم نہ تھے، اڑیل اور ضدی ہیں انھوں نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ہے اور اب کراچی میں اصل مہاجروں کی اکثریت، ایک تو ان کو سرے سے مہاجر ہی نہیں مانتی (حالانکہ تعریف سے یہ بھی مہاجر ہیں) اور دوسرا ان کو قبضہ مافیا، ٹرک مافیا اور ڈرگ مافیا کے نام سے پکارتی ہے۔ اللہ دے اور بندہ لے، دہشت گرد کہلوانے سے بہتر نہیں کہ آپ صرف قبضہ مافیا یا ڈرگ مافیا کہلوائیں؟
کراچی جو کبھی سب کا ہوا کرتا تھا، اب کسی کا نہیں رہا۔ میں سنوں وہاں روز لاشے گرتے ہیں، وہاں روز گھمسان کا کارن پڑتا ہے۔ میں نے عرصہ ہوا یہ نہیں سنا کہ کوئی لونڈا اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچتے ہی بگڑ کر کراچی بھاگ گیا۔ ہاں کراچی سے جوق در جوق، خاندانوں کو واپس بھاگتے ضرور دیکھتا ہوں۔ جو ایوب کے دور میں وہاں جا کر بسے تھے، وہ اب واپس اپنے ہی آبائی وطن میں مہاجر بن کر پہنچ رہے ہیں۔ تب صرف کراچی میں مہاجر ہوا کرتے تھے، اب مانسہرہ میں مانسہرہ کے کراچی بدر مہاجر بھی کافی تعداد میں ہیں۔
کچھ دن پہلے ہی راولپنڈی کے پیرودہائی موڑ پر ایک دکان پر نیا اور اجلا بورڈ دیکھا جہاں "کراچی کی مشہور، پشاوری آئسکریم" بک رہی تھی۔ راولپنڈی میں، وہ دکاندار کراچی کا ہی مہاجر لگا مجھے؛ شکل تو اس کی گلیات والوں جیسی تھی پر منہ میں پان کی سُرخی وہ کراچی کے مہاجروں والی سجائے، بیزار بیٹھا تھا۔
آئیس کریم پشاوری ، لیکن کراچی والی
جواب دیںحذف کریںاور بک رہی ہے راولپنڈی میں
اس ائیس کریم والے نے تو سارا پاکستان متحد کردیا
اعلٰی
جواب دیںحذف کریںکمال تو یہ ہے کہ کراچی جائے بغیر کراچی کا درست نقشہ کھینچا ہے
جواب دیںحذف کریںواہ!!!
جواب دیںحذف کریںاگرچہ اصل مہاجر کم ازکم بلاگستان کی حد تک یہی سمجھتے ہیں کہ کراچی بارے لکھنا سوائے ان کے، کسی کے لیے جائز نہیں لیکن اگر دل کھول اور دماغ کے جالے اتار کے یہ تحریر پڑھی جائی تو تصویر کا وہ رخ سامنے آتا ہے، جسے آج کل ناگفتنی وجوہات کی بناء پر کوئی بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا۔
جواب دیںحذف کریںشاباش۔
از احمر
جواب دیںحذف کریںپہلے صرف معتقد تھے اب مرید ہو گیے
آپ واقعی کراچی نہیں گئے۔ کراچی کے اردو اسپیکنگ کو 80 میں یہ گلہ تھا کہ باوجود ٹیکس کے بڑے حصے کے اس شہر میں ترقی کم ہوتی ہے اور اکثر سرکاری جابز پر پنجاب اور پٹھان ہیں۔ گلہ جائز تھا پر ایک پٹھان ویگن ڈرایور کے ھاتھوں ایک اسکول طالبہ کی ھلاکت نے اخری کیل ٹھونک دی اور ایم کیو ایم وجود میں آئی ۔ بہرحال اردو اسپیکنگ کو ایک پارٹی ملی اور وہ مہاجر نام پر ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ عجیب بات ہے کہ اگر مہاجر اپنے آپ کو مہاجر کہلانا چاہتے ہیں تو دوسرں کو کیا اعتراض ؟ دویم یہ کہ پٹھان کلچر میں اسلحہ بنیادی چیز ہے اور کم از کم کراچی آنے والے پٹھان ÷ افغانی اکذر گیر قانونی کاموں میں ملوث ہوتے ہیں اس لئے ایک دیوار کھڑی ہے جسے دونوں نے ملکر ھی گرانا ہوگا
جواب دیںحذف کریںبھائی صیب کراچی نہ جانا آپ کی مہربانی اتنے اچھے ،بلاگر سے ہم محروم نہیں ہونا چاہتے
جواب دیںحذف کریںماننا مہاجر اور پٹھانوں میں سے کسی نے نہیں
مگر یہاں کے باسی کراچی میں اتنا عرصہ رہنے کے باوجود اپنے دلوں میں کراچی جیسی وسعت پیدا نہ کر سکے
جواب دیںحذف کریں_________________________________________________
کراچی میں دنیا کے کسی بھی علاقے سے زیادہ پختون آباد ہیں۔ جو یہاں ایک دن میں نہیں آئے ۔۔۔۔ ایک طویل عرصہ سے رہ رہے ہیں۔
یہاں جتنی وسعت قلبی ہے اسکا آپ اندازہ ہی نجہیں کرسکتے۔کیونکہ آپ حضرات کبھی بھی صوبائیت اور اردو بولنے والوں سے بغض کو خود سے دور نہیں کرسکتے۔
حضرت باہر بیٹھ کر تبصرے کرنا بہت آسان ہے کبھی فرصت ہو تو مہاجروں کے گڑھ یعنی عزیز آباد جہاں نائن زیرو بھی ہے، کا چکر لگالیجیے گا اور وہاں کاروبار کرنے والوں کو غور سے ضرور دیکھیے
گا آپ کو اپنی رائے پر ضرور شرمندگی ہوگی۔
برا نا مانیں تو ایک بات کہوں کہ ایم کیو ایم کا بدمعاش یا دہشتگرد بھی اپنی وسعت قلبی میں آپ حضرات سے کہیں زیادہ ہے۔
صاحب آپ دل سے لکھتے ہیں اس لیے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔۔ بات طویل ہے میں ایک چھوٹے تبصرے میں بیان نہیں کرسکتا اسلیے ایک پوسٹ شروع کردی ہے۔ سب اتنا سیاہ سفید نہیں بلکہ بہت کچھ سرمئی ہے ۔ اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر آپ کراچی نہیں گئے تو ضرور جائیں۔ دنگا فساد کے ساتھ ساتھ کراچی میں زندگی بس چلتی رہتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںحیرت ہے کہ آپ لفظ "مہاجر" کے لغوی معنی ہی پر پھنس کر رہ گئے ہیں اور اس کی حثیت بطور ایک تاریخی اصطلاح کے سمجھنے میں بالکل ناکام دیکھائی دیتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںکراچی میں مہاجر اپنی قومیت کے لئے کلمہ شناخت مہاجر رکھنا پسند کرتے ہیں۔ یہ بتائیے کہ خیبر پختنخواہ سے کراچی ہجرت کرنے والے پختون اپنی شناخت کس لفظ سے کروانا پسند کرتے ہیں ؟ پختون یا مہاجر ؟
میں ایسے پنجابیوں سے واقف ہوں جن کی پیدائش اور پرورش کراچی کی ہے اور وہ پنجابی بولنے سے قاصر ہیں۔ لیکن اپنی شناخت پنجابی کے طور پر کرواتے ہیں۔ آپ کے خٰیال میں انھیں اپنی شناخت کس طور کروانی چاہیے ؟ پنجابی یا مہاجر ، یا پنجابی مہاجر ؟
آپ کے خیال اگر کوئی قوم اپنی شناخت کے لئے کوئی مخصوص لفظ استعمال کرتی ہے تو اسے کیونکر اور کن بنیادوں پر چیلنج کیا جاسکتا ہے ؟ کیا یہ کافی نہیں کہ ان کے لئے وہی استعمال کیا جائے جو وہ پسند کرتے ہیں ؟
امریکہ میں سیاہ فام اپنی شناخت افریقن امیریکن کے طور پر کروانا پسند کرتے ہیں۔ لیکن کینیڈا میں سیاہ فام اپنے لئے بلیک کنیڈئن کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ دونوں ہی سیاہ فام ہیں دونوں میں سے بہت سے لوگوں کا افریقہ سے کوئی نزدیکی تعلق نہیں۔ پھر کلمہ شناخت میں فرق کیوں ؟
اس کا جواب آپ کو لغت میں نہیں ملے گا۔ تاریخی اور تہذیبی پس منظر اور ان لوگوں کے ردعمل سمجھنا ہوگا۔
مجھے کینیڈا میں رہتے دہائیاں بیت گئیں آج پہلی بار بلیک کینیڈیئن کی اصطلاح سنی
حذف کریںویسے آپ کو کراچی آنا چاہیے کیوں کہ نہ آ کر آپ نے اتنا اچھا لکھ ڈالا اور اگر۔۔۔۔۔۔کون لوگ او تسی۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںکراچی برگر اور بریانی بھی بڑی مشہور ہے راولپنڈی میں۔
جواب دیںحذف کریںمزے کی تحریر تھی۔
جب آپ کراچی گئے ہی نہیں ..
جواب دیںحذف کریںتو آپ اس پر تبصرہ کیسے کر سکتے ہیں ..
کراچی والوں کی وسعت قلبی جاننے کے لئے وہاں جائیں ..
دور بیٹھ کر تعصب نہ کریں.
ویسے بھی . حضرت عمر رضی الله عنھ نزدیک یہ جھوٹی گواہی ہوئی...
ویسے جو آپ نے لکھا یہ بھی تعصب ہے .. ذرا اردو بولنے والا بن کر پڑھ کے دیکھیں ...
اسلام علیکم
جواب دیںحذف کریںمجھے بہت افسوس ہے اگرمیرے اردو بولنے والوں بھائیوں کو اس پوسٹ سے دکھ ہوا- میں بھی اردو سپیکنگ ہوں۔ اور پنجاب میں پلی بڑھی ہوں- تعصب کا شکار ہم بھی ہوئے تھے پنجاب میں مگر الحمدللہ بدلے م یں تعصب کو دل میں جگہ نہیں دی بلکہ انکی تنگ دلی اور تنگ نظری کو انکی کم علمی اور اسلام سے دوری سمجھ کر برداشت کیا الحمدللہ- اور اسکاثبوت یوں دیاکہ ایک پنجابی سپیکنگ سے شادی کروالی ہم نے :)
ہمیں سبھی اردو بولنے والوں سے محبت ہے(سوائے الطاف اینڈ کو کے) اور پنجابی بولنے والوں سے بھی اتنی ہی محبت ہے- پنجاب نے علامہ اقبالؒ پیدا کیا تو انڈیا نے ابو الاعلی مودودیؒ
اچھے برے اور متعصب لوگ تو سب جگہ ہوتے ہیں اب اپنے گوروں اور یہودیوں کو ہی دیکھ لیں- مگر امت محمدی ؐ جسکو آخری خطبے کے الفاظ یاد ہوں وہ ایسا کرے تو بہت دکھ کی بات ہے-
نیتوں کے حال تو اللہ جانتا ہے کہ کس نے کس نیت سے کیا لکھا اور پھر کس نے اسکا کیا مطلب نکالا مگر ہم سب کو بلینکٹ سٹیٹمنٹ دینے اور سٹیریو ٹائپنگ سے پرہیز کرنا چاہئے اور ایک دوسرے کے جزبات کا خیال رکھنا چاہئے کہ یہ ایک ادبی اور پڑہے لکھے طبقے کی دنیا ہے
اگر کسے کے سوری کرنے سے کسی کا دکھی دل قرار پا سکتا ہو تو اسکو ضرور معافی مانگ لینی چاہئے کہ اسی میں اعلی ظرفی ہے
ام عروبہ
یہاں تو بڑی گرما گرمی ہو چکی ہے، ابھی ابھی جواد بھائ کی پوسٹ پڑھ کرآ رہی ہوں ،میں نے بھِی موٹی اصطلاحات استعمال کر لی تھین اس لئے ترجمہ کرنے آئ ہوں :)
جواب دیںحذف کریںبلینکٹ سٹیٹمنٹ = ایک ہی چھڑی سے سب کو ہانکنا
سٹیریو ٹاِپنگ= کسی پرانے وا ٹھپہ لگا دینا
برسوں سے جل رہا ہے کراچی لیکن پھر بھی چل رہا ہے کراچی
جواب دیںحذف کریںنعمان کی منطق پر عمل کیا جائے تو اس دنیا میں کوئی بھی کسی بھی معاملے پر بولنے کا حق نہیں رکھتا۔
جواب دیںحذف کریںانتہائی اعلی درجے کی ذومعنی لیکن مبنی برحقیقت تحریر ۔۔۔ یہ الگ بات کہ تحریر کئی پہلئووں سے گریزاں سی نظر آتی ہے لیکن مہاجر کے نعرہ پر سیر حاصل تبصرہ ہے۔ عمدہ
جواب دیںحذف کریںپہلی بار آپ کے بلاگ پر آنے کا اتفاق ہوا تو افسوس ہوا کہ اتنا عرصہ میں کہاں رہا
جواب دیںحذف کریںبہت خوب لکھتے ہیں آپ