اشاعتیں

مینڈک اور بچھو

تصویر
ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ایک بچھو دریا پار کرنا چاہتا تھا چنانچہ اس نے ایک مینڈک سے مدد مانگی۔  'مجھے خوشی ہو گی۔۔۔' مینڈک نے کہا، 'لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے تمھیں پیٹھ پر چڑھایا تو تم ڈنگ مار دو گے!' 'ارے، میں ایسا کیوں کروں گا؟' بچھو نے تسلی دیتے ہوئے کہا، 'میں ڈنگ ماروں گا تو ہم دونوں ہی مر جائیں گے؟' اس پر مینڈک کی تسلی ہو گئی۔ اس نے بچھو کو اپنی پیٹھ پر لاد دیا۔ وہ دونوں دریا کے پانی میں تیرنے لگے۔ جب دریا کے وسط میں پہنچ گئے تو بچھو نے زور سے مینڈک کی پیٹھ پر ڈنگ مار دیا۔ مینڈک چیخ اٹھا، 'تم نے ایسا کیوں کیا؟ اب ہم دونوں ہی مر جائیں گے'۔  'ڈنگ مارنا تو میری فطرت ہے۔۔۔' بچھو نے کہا۔ اب وہ دونوں ہی گہرے پانی میں ڈوبنے لگے۔ ان کی قسمت میں دریا کے گدلے پانی کی گہرائیوں میں کیچڑ کی قبروں میں دفن ہو جانا لکھا جا چکا تھا۔  یہ دونوں ہی عام تھے۔ عام سے بچھو اور  اس سے بھی عامی مینڈک کے اس طور خاتمے پر کسی کو  خوشی اور نہ ہی افسوس ہوتا بلکہ کسی کو خبر بھی نہ ہوتی۔ ان کی دنیا یہیں پر۔۔۔۔ 'ارے رکو۔۔۔' مرتے ہوئے مینڈک نے چلا کر داستان گو

تین کہانیاں

پہلی کہانی: خدا کے بارے یہ کہانی سنیں۔ یہ بیٹھے بیٹھے دماغ میں جھماکے کی صورت وارد ہوئی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ میں کسی روز اس کہانی کو کام میں لا سکوں یا شاید ایسا نہ ہو؟ بلکہ اس کے مصرف کا کوئی احتمال نہیں ہے۔ جب آپ یہ کہانی سنیں گے تو آپ بھی مجھ سے اتفاق کریں گے۔ امید ہے، آپ سمجھ پائیں گے کہ آخر اس کہانی کا کوئی مصرف کیوں نہیں ہے؟ میں تو ہر وقت نت نئی کہانیاں سوچتا رہتا ہوں لیکن انھیں کبھی لکھتا نہیں ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی سبھی کہانیاں عجیب و غریب معلوم ہوتی ہیں۔ یہ کہانی ایک چھوٹی سی فیملی کے بارے ہے جو موٹر کار میں سوار کسی ملک میں، کہو۔۔۔ یوگوسلاویہ کے شہری علاقوں سے دور دیہی علاقے کی جانب سفر کر رہی ہے۔ آپ اپنی سہولت کے لیے اس فیملی کو جس طرف چاہیں، روانہ سمجھ لیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ یہ لوگ یوگوسلاویہ سے یورستے کا سفر کر رہے ہیں۔ یورستے آسٹریا کی سرحد کی جانب ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ یہ فیملی آبیلا کی جانب جانے والی ایک چھوٹی سڑک پر محو سفر ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ یہ دونوں علاقے ایک جیسے ہی ہیں اور اس کہانی میں فیملی کے سفری ارادوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے۔۔۔

تصویر
آج سے چار سال پہلے کی بات ہے۔ مجھے دفتری کام کی غرض سے بنوں جانا پڑا۔۔۔ یہ سطر لکھ دی تو بوجوہ خیال آیا کہ وضاحت کر دوں۔ مجھے واقعی دفتری کام پیش آ گیا تھا۔  یہ وضاحت ضروری تھی۔ وہ یوں کہ اسی دن اور اسی حوالے سے یہ سنتے جائیں۔  ہمارے ایک دوست ہیں۔ وہ ذات کے کاکڑ ہیں لیکن ان میں کاکڑ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے زندگی میں دو چار ہی کاکڑ دیکھ رکھے ہیں لیکن یہ صاحب باقی کے تین کاکڑوں سے پرے لگتے ہیں۔ ایسے جیسے یہ کاکڑ  ہی نہیں ہیں۔ خیر آگے سنیے۔ پشاور سے یا پھر راولپنڈی سے بنوں جائیں تو وہاں پہنچنے کو دو راستے ہیں اور دونوں ہی انڈس ہائی وے سے نکلتے ہیں۔ ایک تو وہ ہے جو اب شاہراہ عام ہے۔ یعنی اچھی بھلی پکی سڑک ہے جو کھلے میدانوں میں دوڑی دوڑی بنوں پہنچ جاتی ہے۔ دوسرا راستہ پہاڑی ہے اور بل کھاتا بنوں کو جا لگتا ہے۔ یہ کبھی عام راستہ تھا لیکن اب نہیں ہے۔ پہلے پہل لوگ بنوں سے ہو کر بنوں سے آگے  جیسے ڈیرہ اور کراچی وغیرہ جایا کرتے تھے۔ اب انڈس ہائی وے پر فراٹے بھرتے باہر سے ہی نکل جاتے ہیں۔ بہرحال یہ پہاڑی علاقہ کافی دلچسپ ہے اور کرک کی سوکھی، نمکین دھرتی سے ہو کر گزرتا ہے۔ بہت سے موڑ ہیں اور

ڈبہ

'ابھی اور یہاں۔۔۔' آواز بولی۔ اس آواز میں بے تکلفی اور انس تھا۔ مجھے لگا، جیسے یہ آواز میرے اندر مجسم ہو لیکن یہ ڈبے میں سے آ رہی تھی۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ دراصل، میں اس ڈبے کے اندر بند ہوں۔ یہ ایک سادہ ، تاریک مکعب جیسا ڈبہ تھا۔ یہ اتنا بڑا تو ضرور تھا کہ اس کے اندر کھڑا ہوا جا سکے کیونکہ  مجھے لگا رہا تھ اکہ جیسے میں اس ڈبے کے اندر کھڑا ہوں۔ ڈبے کے اندر اتنی تاریکی تھی کہ مجھے اپنے ہاتھ  اور پاؤں وغیرہ دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ویسے بھی اس ڈبے میں غالباً باقی  کچھ بھی نہیں تھا جسے دیکھا جا سکے اور کوئی دوسرا بھی نہیں تھا جسے تاڑا جا سکے۔ 'میں کہاں ہوں؟' میں نے پوچھا، 'تم ابھی اور یہاں ہو۔۔۔' ڈبے نے جواب دہرایا۔ 'میں کون ہوں؟' میں نے  بات آگے بڑھائی،  'تم،  میں ہو۔۔۔' ڈبے نے  گول مول کہا۔ 'اس ڈبے کو کھولو۔۔۔' میں نے تاریکی میں ہاتھ لہراتے ہوئے، تاریکی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، 'اس کو کیسے کھولیں؟ بس یہی ہے۔۔۔' 'میرا مطلب، اس ڈبے کو باہر دنیا کی جانب کھولو۔۔۔ دنیا کہاں ہے؟' 'دنیا ابھی اور یہاں ہے۔۔۔' ڈبے نے پھر د

کیوں بھئی پیارے؟

بہت پہلے کی بات ہے۔ اب یہ تو یاد نہیں کتنا پہلے لیکن بہت ہی پہلے کی بات ہے۔ اس وقت میں لونڈا لپاڑہ ہوتا تھا اور مجھے علم ہی نہیں تھا کہ میں لونڈا لپاڑہ ہوں بلکہ کیا سرے سے کچھ ہوں؟ ان دنوں مجھے رہ رہ کر ایک خیال آیا کرتا تھا کہ بھئی، تم کس لیے جیتے ہو؟ تمھارا مقصد کیا ہے؟ تم پیدا ہوئے، تم پڑھ لکھ گئے اور اب تم نوکری بھی کرتے ہو۔ کبھی کبھار کچھ لکھ بھی لیتے ہو، لیکن اس سارے قضیے کا مقصد کیا ہے؟ اب یہ وہ وقت تھا کہ جب کسی کو مجھ سے کوئی توقع نہیں تھی۔ کوئی پوچھتا نہیں تھا، اس لیے اپنی ہی دھن میں مگن رہتے تھے۔ اچھا، دھن کیا تھی؟ دھن یہ ہوا کرتی تھی کہ جس طرف منہ اٹھایا ،نکل لیے اور سوائے بی بی جی۔۔۔ کسی کو فکر نہ ہوتی تھی۔ نوکری اچھی تھی تو خوب گھومتے تھے۔ سب سے پہلے تو اپنا ضلع دیکھا، پھر دوسروں کے اضلاع دیکھنے نکل گئے۔ کیسے کیسے لوگ ملے؟ ان پر پھر کبھی لکھیں گے۔ بہرحال، سگرٹ وغیرہ پی لیتے تھے۔۔۔ اورکبھی کبھار فلم دیکھ لیتے تھے۔ کھانے پینے کا اتنا شوق نہیں تھا لیکن پھر بھی یار دوستوں کے ساتھ۔۔۔ یہ بھی بھلا کوئی دھن تھی؟ تو اس بیکار کی دھن میں ایک خیال آیا کرتا تھا کہ بھئی، تمھیں تو

آدمی: بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ

تصویر
ایک لاکھ سال پہلے کرہ ارض پر انسانوں کی کم از کم چھ انواع پائی تھیں۔ آج صرف ایک ہے۔ وہ ہم ہیں یعنی، خرد مند آدمی! ہم آدمیوں کی نوع انسانی نے غلبے کی یہ لڑائی کیسے جیتی؟ ہمارے تاختی اور شکاری، آزاد منش آباو اجداد شہر اور بادشاہتیں بسانے کو اکٹھا کیوں ہو گئے؟ ہم خداوں، اقوام اور انسانی حقوق میں یقین رکھنے کی نہج پر کیوں پہنچے؟ ہمیں زر، پیسے، کتب اور قوانین میں بھروسا کیوں ہے؟ ہم بیوروکریسی، نظام الاوقات اور صارفیت کے غلام کیوں ہیں؟ اور اگلی ہزاری میں ہماری دنیا کیسی ہو سکتی ہے؟ آدمی: بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ میں ڈاکٹر یووال نوحا ہریری نے پوری انسانی تاریخ کو کھنگال کر رکھ دیا ہے۔ اس دھرتی پر چلنے پھرنے والے پہلے انسان سے لے کر انتہائی بنیاد پرست جو بعض اوقات انتہائی تباہ کن ثابت ہوا۔ اس کتاب میں شعور اور آگاہی، زرعی اور سائنسی انقلاب کے مراحل کو طے ہوتا دکھایا گیا ہے۔ حیاتیات، بشریات، رکازیات اور معاشیات کے علم کی مدد سے مصنف نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ تاریخ کی لہروں نے انسانی معاشروں، ہمارے اردگرد بسنے والے حیوانات اور نباتات۔۔۔ یہاں تک کہ خود آدمی کی شخصیت کو کیس

ہم اہل دل کو اگر مات ہو گئی پیارے۔۔۔

یہ جو شاعر ہوتے ہیں۔۔۔ ہر ایرا غیرا نہیں بلکہ یہ جو اچھے شاعر ہوتے ہیں، آخر کار ہمارے شاعر بن جاتے ہیں۔ اب جون ایلیا کی ہی مثال لے لیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی ان سے نالاں ہیں لیکن یہ وہی کہہ گزرے ہیں کہ زندگی میں خوش رہنے کے لئیے بہت زیادہ ہمت بلکہ بہت زیادہ بے حسی چاہئیے۔ اسی لیے جون ایلیا ساری عمر جل بھن کر، سڑ سڑ کر جیے کہ شاید وہ بے حس نہیں تھے۔ ایک اچھے شاعر کی خاصیت ہے کہ وہ حساس ہوا کرے۔ اسے احساس نام کی چڑیا سے جی لگانا پڑتا ہے۔ اسے گھٹ گھٹ کر جینا پڑتا ہے، تبھی تو اچھی شاعری جنم لیتی ہے۔ نزول ہوتا ہے، لفظ جڑتے ہیں اور مانند لڑیوں میں موتی پروے جاتے ہیں۔ شعر کہے جاتے ہیں۔ اچھے شعر کو داد دینی چاہیے۔ اس سے جی نہیں لگانا چاہیے ورنہ بڑا مسئلہ ہو جاتا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا بلکہ یوں کہیے کہ کسی مشہور شخص کا کہا پڑھا تھا کہ شاعری سے دور رہو، بالخصوص اچھی شاعری سے تو کوسوں دور رہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اچھے شعروں میں یہ گن ہوتا ہے کہ وہ ایسی ایسی کیفیات سے آشنا کروا دیتے ہیں جو حقیقت میں کبھی طاری ہی نہیں ہوئیں۔ شعر، محبت میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ ایک مرتے ہوئے آدمی کا نزع

شریعت

تصویر
جہاں پولیس اور عدلیہ کا حال یہ ہو، پاکستان کی عوام کا مکمل طور پر مختلف اور بہتر انصاف کے نظام کا خواب دیکھنا قدرتی امر ہے۔ اس ضمن میں عوام کی اکثریت شریعت سے امیدیں وابستہ کرتی ہے۔ مجھے پاکستان کے طول و عرض میں عام لوگوں سے بات چیت کا موقع ملا ہے۔ میں نے طالبان کے ساتھ ملک کے بعض حصوں، جیسے سوات میں 2002ء کے نظام عدل معاہدے کی بابت رائے جاننا چاہی تو پشتون علاقوں میں اس کی بے پناہ حمایت دیکھنے میں آئی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان علاقوں میں شرعی نظام عدل بابت پہلے پہل تو خوب چرچا تھا لیکن جب طالبان نے پشتون خطے میں ساتھ ساتھ طاقت اور اختیار بھی ہتھیانا چاہا تو عوام کی اکثریت کترانے لگی۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے دونوں اطراف باسی جانتے ہیں کہ 1990ء کی دہائی میں افغان طالبان نے شرعی نظریات کے بل بوتے پر افغان مجاہدین کے ہاتھوں پھیلی افراتفری پر قابو پا کر حکومت قائم کی تھی اور امن لوٹ آیا تھا۔ دنیا کے ایک دوسرے کونے، صومالیہ میں بھی اسلامی عدالتوں کی صورت میں شریعت کا ایسا ہی تصور پایا جاتا ہے ۔ صومالیہ کی عوام بھی طویل عرصے سے ملک میں امن کی متمنی تھی۔ افغان طالبان نے

وکلاء تحریک

تصویر
2007ء کے اواخر تک ایسا لگتا تھا کہ پاکستانی عدلیہ کی اشرافیہ اور عوام کے بیچ بالآخر ایک پل بننے جا رہا ہے۔ عدلیہ کے لیے یہ عوامی حمایت آخر کار ملک میں روشن خیالی کی لہر بن کر ابھرے گی۔ یہی نہیں، عدلیہ کو بھی آخر کار ایک ایسا سنہری موقع مل گیا ہے کہ وہ اپنی ہئیت میں بنیادی تبدیلی کی مدد سے بتدریج ارتقائی عمل میں داخل ہو سکتی ہے۔ یہ سنہرا تصور وکلاء تحریک کی بنیادوں میں جڑا ہوا تھا۔ اس تحریک نے صدر مشرف کی حکومت گرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بعد اس کے، صدر زرداری کی حکومت کو بھی وکلاء تحریک سے اسی طرح کے خطرات کا سامنا تھا۔ وکلاء تحریک کی ابتداء 2007ء کے اوائل میں ہوئی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتحار چوہدری نے پہلی بار صدر مشرف کے اختیارات اور طاقت پر قدغن لگانا شروع کیا۔ اس سلسلے میں پاکستانی شہریوں کی امریکیوں کے ہاتھ 'گمشدگی' پر بھی سوال اٹھانے شروع کر دیے۔ تس پر مشرف نے بدعنوانی کو وجہ بنا کر چیف جسٹس کو عہدے سے معزول کر دیا۔ صدر مملکت کے ہاتھوں چیف جسٹس کی اس طور معزولی کے نتیجے میں ملک بھر کے وکلاء نے صدر کے خلاف تحریک شروع کر دی۔ ان کی حمایت میں عوام کی کثیر تعداد بھ