مینڈک اور بچھو



ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ایک بچھو دریا پار کرنا چاہتا تھا چنانچہ اس نے ایک مینڈک سے مدد مانگی۔ 
'مجھے خوشی ہو گی۔۔۔' مینڈک نے کہا، 'لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے تمھیں پیٹھ پر چڑھایا تو تم ڈنگ مار دو گے!'
'ارے، میں ایسا کیوں کروں گا؟' بچھو نے تسلی دیتے ہوئے کہا، 'میں ڈنگ ماروں گا تو ہم دونوں ہی مر جائیں گے؟'
اس پر مینڈک کی تسلی ہو گئی۔ اس نے بچھو کو اپنی پیٹھ پر لاد دیا۔ وہ دونوں دریا کے پانی میں تیرنے لگے۔ جب دریا کے وسط میں پہنچ گئے تو بچھو نے زور سے مینڈک کی پیٹھ پر ڈنگ مار دیا۔ مینڈک چیخ اٹھا، 'تم نے ایسا کیوں کیا؟ اب ہم دونوں ہی مر جائیں گے'۔ 
'ڈنگ مارنا تو میری فطرت ہے۔۔۔' بچھو نے کہا۔
اب وہ دونوں ہی گہرے پانی میں ڈوبنے لگے۔ ان کی قسمت میں دریا کے گدلے پانی کی گہرائیوں میں کیچڑ کی قبروں میں دفن ہو جانا لکھا جا چکا تھا۔  یہ دونوں ہی عام تھے۔ عام سے بچھو اور  اس سے بھی عامی مینڈک کے اس طور خاتمے پر کسی کو  خوشی اور نہ ہی افسوس ہوتا بلکہ کسی کو خبر بھی نہ ہوتی۔ ان کی دنیا یہیں پر۔۔۔۔
'ارے رکو۔۔۔' مرتے ہوئے مینڈک نے چلا کر داستان گو کو ٹوکا۔ اصل میں ماجرا یہ تھا کہ  گزشتہ رات دریا کے کنارے ایک کنسرٹ کا بندوبست کیا گیا تھا۔ پوری رات بلا کا شور و غوغا مچا رہا تھا۔ یہی نہیں، کنسرٹ کے دوران تماکو کا دھواں بھی خوب پھونکا گیا تھا۔ چنانچہ گزشتہ رات کے شور میں جاگے مینڈک کے جسم میں اب بھی تماکو کا نشہ دوڑ رہا تھا۔ اسی لیے اب زہر اس کے جسم میں سرایت تو کرتا جا رہا تھا لیکن اس کا جسم ابھی تک اس کے زیر اثر نہیں آ سکا تھا۔ مینڈک ڈنگ کے بعد بھی پوری طرح ہوش و حواس میں تھا۔ اسی کیفیت میں، اب چونکہ مینڈک کا دماغ خوب چل رہا تھا تو اس نے ٹوک کر بچھو کو مخاطب کیا، 'بے سالے، اگر تم اپنی فطرت اور جبلی تحریک کی چال ڈھال سے اس قدر واقف ہو تو یقیناً تم خود کو نہایت سیانا بھی سمجھتے ہو گے؟' 
'ہاں،  سو تو ہے۔ بلکہ اس بات پر تو تم مجھ سے بھلے شرط لگا لو۔۔۔' بچھو نے جواب دیا۔ 
'تم نے جس میٹھے انداز میں مجھ سے جھوٹ بولا ہے، تم یقینی طور پر انتہائی چالاک اور دنیا پرست بھی واقع ہوئے ہو۔۔۔'
'سو تو ہے۔۔۔ میں نے دنیا دیکھ رکھی ہے!'، بچھو فخر سے بولا۔ 
'اگر تم اتنے ہی چالاک اور سیانے ہو تو تمھیں آج تک یہ خیال نہیں آیا کہ تم اپنی اس کمینی فطرت پر قابو بھی پا سکتے ہو؟ اس کو نکیل ڈال سکتے ہو؟' مینڈک نے کہا تو بچھو بولا، 'میں ایسا کیوں کروں گا؟'
اس پر مینڈک نے ٹوکا لگا کر کہا، 'تم نہایت احمق ہو۔ تمھاری اس بقول تمھارے فطری حرکت کی وجہ سے چلو، میں تو مارا ہی گیا ہوں۔۔۔ تم خود بھی تو ڈوب کر مر رہے ہو۔ ارے بیوقوف، اگر تم بیس سیکنڈ مزید انتظار کر لیتے تو دریا پار چڑھ کر بھی تو مجھے ڈنگ مار سکتے تھے۔۔۔'
'آہ۔۔۔' بچھو نے کہا، 'ضرور، لیکن اس پار کوئی گارنٹی تو نہیں تھی۔ تم مجھے یہاں بندھے بندھائے مل گئے۔ تم پانی کے بیچوں بیچ کہیں بھاگ نہیں سکتے تھے۔ اب تم خواہ مخواہ مجھے اس طرح یقینی طور پر خالص نفع اور سود حاصل کرنے پر برا بھلا کہو گے؟ ارے بدھو، غیر معمولی حالات سے فائدہ اٹھا کر غیر معقول نفع کمانا ہی تو بچھو کا اصل کردار ہوتا ہے۔۔۔'
'ارے ہٹو۔۔۔' مینڈک تلملانے لگا، 'اصل میں تو تمھارا کوئی کردار ہے ہی نہیں۔۔۔ بلکہ تم تو کسی بھی کردار سے اس قدر عاری ہو کہ تمھیں دوسروں کی محنت اور احسان کو جھٹلانے کے سوا کوئی خبر نہیں ہے۔ تم اس قدر بے حس واقع ہوئے ہو کہ اس عمل کے دوران تم خود کو بھی برباد کر دیتے ہو اور تمھیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ کردار کاہے کا؟ تم تو سرے سے کسی۔۔۔۔' مینڈک نے آہ بھری اور پھر کہا، 'پتہ ہے کیا؟ اس سارے قصے میں سب سے ہتک آمیز بات یہ نہیں ہے کہ یہ تم نے سخت حماقت کا کام کیا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ تم نے حماقت کا کام تو کیا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ اس حماقت پر معافی مانگنے سے بھی سخت خوفزدہ ہو۔ یہی نہیں، تم نے تو اس حماقت اور خوف کے اردگرد، اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے عجیب و غریب، بناوٹی اور سرا سر بچگانہ قسم کا عقیدہ بھی پال رکھا ہے۔ ارے، تم تو اتنے کھڑاگ واقع ہوئے ہو کہ تمھاری چال کے بودے پن میں، ٹروجنی گھوڑا بھی کھسیانا لگتا ہے۔ تمھارے خیال میں، تم شاید بہت چالاک ہو جو کہ ہر کسی کو یہی بتاتا ہے کہ دنیا کا طریق ہی یہ ہے کہ لالچ سے تر غیر معقول فائدہ اٹھانے کے لیے جائز و ناجائز سب چلتا ہے۔۔۔  لیکن اصل میں تم ایسا احمق کوئی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمھیں ابھی تک یہ سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہمارا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے۔ تمھیں ہم باقیوں کی بھی ضرورت ہے۔۔۔ بلکہ  غیر معقول تو چھوڑو۔۔۔ معقول حد تک نفع اور فائدہ حاصل کرنے کے لیے بھی ہم ایک دوسرے کے محتاج ہیں'۔
اس پر بچھو نے پھر پینترا بدلا اور بولا، 'کیا تم نے وہ کہاوت سن رکھی ہے کہ اس دنیا میں تم جوانی میں ہی ہیرو کی طرح مر جاو ورنہ تمھیں بڑھاپے میں خود کو ولن کی موت۔۔۔۔'
'ہٹ بے سالے۔۔۔۔!' مینڈک کو یکدم طیش آ گیا، 'ایسا نہیں ہوتا۔۔۔ یہ دنیا بنیادی طور پر خائن اور ظالم نہیں ہے۔ بلکہ دنیا بذات خود تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا کسی سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے۔ یہ تو اس دنیا کی مخلوق ہے جس نے اسے ایسا بنا رکھا ہے۔ اصل مسئلہ تو تم ہو۔۔۔۔ بات یہ ہے کہ تم  نے خود کو خواہ مخواہ ہی اس امر پر قائل کر رکھا ہے کہ دنیا و مافہیا سب بے کار اور بے مصرف ہے۔ تم ایسا اس لیے کرتے ہو تا کہ تم نہایت بے حیائی کے ساتھ دوسروں کے نقصان میں اپنا فائدہ تلاش کرنے کے ہیجان اور جذبے کو تسکین دے سکو۔ اس ہیجان کو، اس جبلی تحریک کا تو کسی بھی لمحے جائزہ لے کر رد کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا کرو تو ظاہر ہے، یہ دنیا اور اس کے معاملات اتنے برے نہیں ہیں۔ ارے، حماقت تو بذات خود جامد ہوتی ہے۔ خبط غیر متحرک ہوتا ہے۔ اصل میں تو حماقت اور خبط کو متحرک کرنے، اسے زندگی بخشنے کے لیے ایک اعلی پائے کا احمق درکار ہوتا ہے۔ پھر یہ اعلی درجے کا احمق اپنی حماقت کو دوسروں کے سر پر تھونپنے پر مصر ہوتا ہے۔۔۔۔ تم اصل میں وہ احمق ہو!'
بچھو نے ایک لمحے کو مینڈک کی کہی ساری بات پر غور کیا۔ اب اسے کوئی جواب نہیں سوجھا تو وہ یہی کہہ سکا کہ، 'تم بھاڑ میں جاو۔۔۔ بھڑوے!'
اس پر مینڈک بھی تپ گیا اور بولا، 'تم بھی بھاڑ میں جاو۔۔۔ سالے!'
'تم مرو۔۔۔ حرامی!'،  بچھو نے کہا تو توں تکرار شروع ہو گئی۔ منہ در منہ گالیاں بکی گئیں۔ یہ چپا چاٹ کافی دیر تک چلتا رہا۔ بالآخر، مینڈک نے لال پیلے ہوتے ہوئے کہا، 'خبطی کہیں کے۔۔۔ نامراد، ناسور۔۔۔ ہم سب ہی خود غرض ہوتے ہیں، تاہم ہمیں اس پر شرمساری بھی ہوتی ہے۔ وہ جو اس طرح کی بے معنی اور لغویات پر یقین رکھتے ہیں، انھیں بیوقوف بنانے کے لیے اپنی خود غرضی کو بڑھا چڑھا کر، جوہری صفت بنا کر پیش نہیں کرتے۔۔۔ تا کہ ہمیں اپنے لیے اس دنیا میں دوسروں سے کچھ زیادہ مال بیوپار ہاتھ لگ جائے۔ یہ تو دنیا داری ہے۔ مثال کے طور میں تو کبھی بھی اس بیہودہ کہانی کا کردار نہیں بننا چاہتا تھا۔ میں تو دراصل کسی قدیم یونانی یا پھر عبرانی داستان کا جیتا جاگتا، من موہنا، اچھا سا کوئی کردار بننا چاہتا تھا۔ مگر کیا کیجیے کہ ان قدیم یونانیوں اور عبرانیوں کو تو۔۔۔ اپنی سماوی اور ربانی داستانوں کے لیے کوئی تیز طرار، حسین اور خوبصورت جانور ہی بھلے لگتے تھے۔ اب تم ہی دیکھو، میں ہمیشہ کے لیے اس بے کار قسم کی حکایت کے لیے یاد رکھا جاوں گا۔۔۔۔ بچھو اور مینڈک کا واہیات قصہ۔۔۔۔ اس قصے سے حاصل ہونے والا سبق کیا ہے؟ کیا اس سےہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اس دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والے احمقوں کے ساتھ گزارہ کیا کریں؟ ان کی حماقت کو صرف اس لیے جھیلا کریں کیونکہ یہ کمینگی اور سستا پن ان کی فطرت میں شامل ہے۔ ان کے ساتھ نباہ کر کے انھیں برداشت کریں کیونکہ وہ خود پر قابو رکھنے میں قادر نہیں ہوتے؟ مگر کیوں۔۔۔ اور اگر یہ احمق اس قدر ڈھیلے واقع ہوئے ہیں تو  اس میں میرا کیا قصور ہے؟ میں کیوں انھیں برداشت کروں؟ خیر۔۔۔ لعنت بھیجو، تم ابھی بھی مجھ سے معافی مانگ لو تو میں تمھیں معاف کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔' 
'میں کبھی معافی نہیں مانگا کرتا۔۔۔۔' بچھو نے ٹوک کر کہا، 
'مگر کیوں؟' مینڈک نے لاچارگی سے پوچھا تو بچھو اچک کر بولا، 'کیوں کہ معافی مانگنا میری فطرت میں شامل نہیں ہے۔۔۔۔'
اب مینڈک کی نظر چکرانے لگی تھی۔ اس کی ہمت بھی جواب دے چکی تھی۔ اس نے بچھو کو اس کے حال پر چھوڑ، چند گہری سانسیں لیں۔ اس پر تف کیا اور وہیں سانس نکل گئی۔ بالآخر اس کا جسم جواب دے گیا۔ وہ مر گیا۔ اس کا بے جان جسم گہرے پانی میں ڈوب کر دریا کی تہہ پر کالی مٹی میں جیسے، بیٹھ گیا۔
مینڈک کے پیچھے ہی بچھو بھی پانی میں ڈوبنے لگا،لیکن وہ نہیں مرا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بچھو اڑتالیس گھنٹے تک پانی کے نیچے زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہ حقیقت بچھو پر پہلی بار آشکار ہوئی تھی۔ اب اسے اپنی حماقت پر خوب غصہ آیا کیونکہ اگر اسے پہلے پتہ ہوتا تو وہ تو خود ہی، اپنے بل بوتے پر بھی دریا پار کر سکتا تھا۔ اسے مینڈک سے مدد مانگنے اور پھر اس کی پشت پر ڈنگ مارنے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس نے پانی کی تہہ میں گدلائی ہوئی مینڈک کی بے جان، دھندلاتی لاش پر نظر ڈالی تو اس کا افسوس دو چند ہو گیا۔ وہ اس قدر افسردہ ہوا کہ اس نے چند منٹ کی خاموشی اختیار کی اور پھر موت کے بارے غور و فکر کرنے لگا۔ وہ مراقبے میں چلا گیا۔ وہ دیر تک موت اور دنیا کی بے ثباتی پر غور کرتا رہا اور اسے رہ رہ کر یہی خیال آتا تھا کہ کیا وہی مینڈک کی موت کا ذمہ دار ہے؟ بچھو نے سوچا کہ ویسے بھی، مینڈک تو روز ہی مرتے ہیں مگر اس طرح کی بہترین موت۔۔۔ بچھووں کے ڈسنے سے مینڈک کہاں مرتے ہیں؟ اس سے بہتر اور یکتا، ڈرامائی موت کیا ہو سکتی ہے؟ یہ مینڈک تو بجائے خوش قسمت تھا۔ اس کے حصے میں مینڈکوں کی عام نہیں بلکہ خاص موت ہاتھ آئی ہے۔ بچھو کو خیال آیا کہ کسی نے کہا تھا کہ ویسے بھی، اس بدقسمت مینڈک نے اپنے آباو اجداد کی ہی طرح اپنی باقی ماندہ زندگی موت کے خوف اور اپنے خداوں کے مندروں میں پوجتے ہی گزارنی تھی اور بالآخر مر ہی جانا تھا۔ لاکھوں میںڈک۔۔۔ روز یوں ہی مرتے ہیں۔ یہ مینڈک تو اب ایک مشہور حکایت کا حصہ ہے۔ اس کی داستان امر ہو گئی۔ کیا ہی قسمت پائی ہے۔۔۔ اگرچہ یہ اس بچھو کا  اپنا خیال نہیں تھا لیکن بچھو نے سوچا، وہ اس خیال کو اپنا ہی بنا کر پیش کیا کرے گا اور خوب شہرت سمیٹے گا۔ پھر، بچھو نے رخصت لی۔ اردگرد کے ماحول اور دن کی روشنی پر شکر ادا کیا اور تیرتا ہوا دریا کے دوسرے کنارے سے باہر نکل آیا۔ 
دریا کے آس پاس اور پانی میں کئی مینڈک یہ سارا منظر دیکھ چکے تھے۔ کئی مینڈکوں نے بچھو کے باہر آتے ہی اسے گھیر لیا اور پوچھنے لگے، 'تم نے آخر ایسا کیوں کیا؟ تم نے اسے ڈنگ کیوں مارا؟' اس پر بچھو نے وہی راگ دوبارہ الاپ دیا کہ، 'ارے، میں کیا کرتا؟ ڈنگ مارنا، میری فطرت میں شامل ہے۔۔۔۔'
'ہائیں۔۔۔ یہ تمھاری فطرت ہے؟' ایک مینڈک چونک کر بولا، 'ہم مینڈک تو بے غرض اور بے نفس ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے بالکل نئی طرز فکر ہے۔۔۔ تم ذرا تفصیل سے بتاو، یہ کس طرح کی سوچ ہے؟'
اس پر بچھو حلق صاف کر کے نہایت دانشمندانہ انداز میں گویا ہوا، 'تم کسی بھی مخلوق کو اس کے فطری عمل پر، بھلے وہ کتنا ہی عاقبت نا اندیش اور بے پرواہی پر مبنی خودپسندی مبنی کیوں نہ ہو۔۔۔ ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ یہ تو اس کی جبلت، اس کی فطرت میں شامل ہے۔ بچھو ڈنگ نہ مارے گا تو کیا کرے گا؟' سارے مینڈکوں نے اس نکتے پر کچھ دیر غور کیا اور پھر ایک مینڈک پوچھنے لگا، 'لیکن پھر فطری عمل کی وجہ سے پیدا ہونے والی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ کس کی غلطی ہے۔۔۔'
بچھو نے ایک دفعہ پھر دانش سے بھرے انداز میں کہا، 'اس کے ذمہ دار تو باقی سب جانور ہیں۔ وہ سارے جانور جو رحمدل اور خدا ترس، بے نفس اور بے غرض واقع ہوئے ہیں۔۔۔ جانوروں کے اس جہاں میں، جو جتنا رحم دل اور دردمند، بے غرض ہو گا، اس کو سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا اور وہ خود کو پہنچنے والے اس نقصان، اس تباہی کا خود ہی ذمہ دار ہے۔۔۔۔'
'ہمم۔۔۔ ایسی بات ہے۔ یہ تو بالکل ہی انوکھی منطق ہے۔ اب سب کچھ بدل جائے گا۔۔۔۔' مینڈکوں نے کہا، 'ہم بھی اس نئے طرز خیال پر خود کو ڈھالیں گے، ورنہ دنیا میں کہاں گزارہ ہے؟' سبھی مینڈک اس پر متفق تھے۔ پھر انھوں نے اس کشف سے بھرے موقع پر بچھو کا شکریہ ادا کیا۔ یہی نہیں بلکہ اسے شام کو کھانے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ اگر بچھو چاہے تو اپنے ساتھ باقی سارے بچھووں کو بھی دعوت میں شامل کر سکتا ہے۔ وہ رات کو مل بیٹھ کر اس نئے طرز خیال پر خوب وچار کریں گے۔ وہ بھی بچھووں سے اپنے مفاد کی خاطر معصومیت اپنانے اور فطرت کے بہانے اور مجبوری میں بے خطا رہنے کا گر سیکھیں گے۔ وہ یہ بھی سیکھنے کی کوشش کریں گے کہ دوسروں کے ساتھ نہ صرف یہ کہ کسی طور دردمندی نہ رکھیں بلکہ ان سے ہر طرح کی ہمدردیاں سمیٹا بھی کریں۔ 
بچھو اور اس کے بہت سارے ساتھیوں نے مینڈکوں کی یہ دعوت قبول کر لی۔
اس شام، مینڈکوں نے نہایت مزیدار کھانا تیار کیا۔ کھانے کی اس پرتعیش دعوت میں زیتون، پاو، شراب اور پنیر کے ساتھ ساتھ جنگل کے سارے بچھو بھی بھڑکتی ہوئی آگ میں بھون کر تیار کئے گئے تھے۔

(ماخوذ)

تبصرے

  1. گمنام29/6/22 08:12

    Wohe na, agr sb he apni nature k mutabiq chalien gy tu phr chal gie ye dunya

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام20/7/22 09:35

    محترم ہمیں اس پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کو علم آپ سے رابط کرنا ہو تو کیسے کریں شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. گمنام29/11/22 23:56

    بہت شاندار! اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اول المسلمین کے بعد - محمدؐ - 1

ٹھنڈا تارا