شریعت

جہاں پولیس اور عدلیہ کا حال یہ ہو، پاکستان کی عوام کا مکمل طور پر مختلف اور بہتر انصاف کے نظام کا خواب دیکھنا قدرتی امر ہے۔ اس ضمن میں عوام کی اکثریت شریعت سے امیدیں وابستہ کرتی ہے۔ مجھے پاکستان کے طول و عرض میں عام لوگوں سے بات چیت کا موقع ملا ہے۔ میں نے طالبان کے ساتھ ملک کے بعض حصوں، جیسے سوات میں 2002ء کے نظام عدل معاہدے کی بابت رائے جاننا چاہی تو پشتون علاقوں میں اس کی بے پناہ حمایت دیکھنے میں آئی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان علاقوں میں شرعی نظام عدل بابت پہلے پہل تو خوب چرچا تھا لیکن جب طالبان نے پشتون خطے میں ساتھ ساتھ طاقت اور اختیار بھی ہتھیانا چاہا تو عوام کی اکثریت کترانے لگی۔
پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے دونوں اطراف باسی جانتے ہیں کہ 1990ء کی دہائی میں افغان طالبان نے شرعی نظریات کے بل بوتے پر افغان مجاہدین کے ہاتھوں پھیلی افراتفری پر قابو پا کر حکومت قائم کی تھی اور امن لوٹ آیا تھا۔ دنیا کے ایک دوسرے کونے، صومالیہ میں بھی اسلامی عدالتوں کی صورت میں شریعت کا ایسا ہی تصور پایا جاتا ہے ۔ صومالیہ کی عوام بھی طویل عرصے سے ملک میں امن کی متمنی تھی۔
افغان طالبان نے اس تصور کو عملی جامہ پہنایا ۔ اس بارے 1989ء میں افغان صوبے پکتیکا میں ایک 'قاضی' نے میرے علم میں اضافہ کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں روس کو شکست ہو چکی تھی اور ملک میں مجاہدین کے ہاتھوں 'آزادی' نصیب ہونے کے بعد کسی باقاعدہ حکومت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ میں نے قاضی سے پوچھا، 'کیا وہ ملک میں کمیونسٹوں کی شکست کے بعد مجاہدین کے قبضے اور تیزی سے پھیلتی ہوئی انارکی سے خوفزدہ نہیں ہے؟ ' تس پر جواب ملا، 'بالکل نہیں۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پشتونوں کے اپنے رواج اور روایات ہیں ۔ ہم پشتون ولی کی مدد سے تنازعات کا حل اور امن قائم رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ پشتونولی سے ہر طرح کی لڑائی کا حل تو نہیں نکل سکتا لیکن یہ ان جھگڑوں کو شدت اختیار کرنے سے ضرور روک سکتی ہے۔ اگر پشتونولی بھی کام نہ آئی تو ہمارے پاس شریعت تو ہر دم موجود ہے۔ اسلام اور شریعت کی تو سبھی عزت کرتے ہیں اور میرا کام شریعت کے تحت انتظام سنبھالنا ہے۔'



لیکن سوال یہ ہے کہ 'شریعت' اصل میں کیا ہے؟ یہ ایسی کیا شے ہے جس کی ہر عام آدمی کو خواہش ہے اور صرف طالبان ہی اس کے نفاذ کے دعویدار ہیں؟ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے بخیے ادھیڑنا ضروری ہے۔ ایک سطح تو یہ ہے کہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ شریعت کی تائید کا اقرار کرے اور اس کی حمایت بھی لازم ہے کیونکہ کسی بھی مسلم معاشرے میں اس کی بنیادی شکل اور ضرورت قران سے واضح ہے۔ قران خدا کی طرف سے نازل کردہ کلام ہے جو رسول خدا کے ذریعے مسلمانوں تک پہنچا۔ دوسری جانب عام لوگ شریعت کو نظام زندگی یعنی دین کا دستور بھی قرار دیتے ہیں جس میں بہتر، سادہ، مساوات پر مبنی، کھرے اور قابل حصول انصاف فراہم کیا جاتا ہو۔ عام طور پر لوگ اس طرح کے دین یا شریعت پر مبنی نظام زندگی کے اصولوں کی تفصیل سے لاعلم ہوتے ہیں یا کہیے کہ شریعت کی مختلف اشکال میں پیچ و خم سے نابلد ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص پر چوری ثابت ہو جائے تو شریعت کی رو سے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے۔ وہ لوگ جو شریعت کے زور و شور سے حمایت کرتے ہیں، چند پشتون علاقوں کے سخت گیر مسلمانوں کے سوا اکثریت اس طرح کی سزا کے تصور سے کھلم کھلا انکار کر دیں گے۔ تا ہم، اس انکار کے باوجود بھی وہ شریعت ہی کا سہارا لے کر زرتلافی اور مفاہمت کی ضرورت پر زور دیں گے۔
قاعدے اور طریقے کی رو سے بات آگے بڑھائی جائے تو پاکستان میں شرعی قوانین متعارف کروانے کا تصور اور اس کی ہر دم ضرورت بارے آواز اٹھانا غیر ضروری ہے۔ وہ یوں کہ 1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے آج تک، آئین پاکستان میں پہلے ہی تمام تر پاکستانی قوانین کو شرعی بنیادوں پر استوار ہیں اور کوئی قانون شریعت کے منافی نہیں ہے۔ لیکن عملی طور پر یہ غیر متعلق اور بے محل ہے۔ قانونی طور پر دیکھا جائے تو اس سے بڑی گڑ بڑ اور تضاد کا ایسا بھنور پیدا ہو گیا ہے جس میں پاکستان کے قانونی حلقے ہر دم گھرے رہتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شریعت کے نفاذ پر زور دیتی ملک میں تحاریک اور مہمات کا محور شرعی قوانین اور اس کے مندرجات نہیں ہے بلکہ یہ ہر دم شرعی قوانین تک رسائی، ان قوانین کے تحت جلد از جلد انصاف کی فراہمی اور شرعی قوانین لاگو کروانے کے لیے بے پایاں اختیار کا حصول ہے۔
پاکستان میں شریعت کو بطور نظام انصاف متعارف کروانے کی کوشش اور مقامی ملاؤں کو جج اور قاضی بنانے کے لیے طالبان اس حد تک گئے ہیں جس کا اس سے قبل تصور ہی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اس خطے کی تاریخ میں بھی ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ انگریزوں سے قبل جنوب ایشیاء کی مسلمان ریاستوں کا دستور ظاہر ہے، شریعت ہی تھا لیکن اس کو لاگو کرنے کا حق صرف ریاستی حکام اور دارالحکومتوں کے ہاتھ میں ہوا کرتا تھا۔ دیہی علاقوں، مضافات اور مقامی سطح پر تو مسائل اور مقدمات کو نبٹانے کے لیے تب بھی رسم و رواج اور علاقائی ضابطے استعمال میں لائے جاتے تھے تا ہم ایسا اسلام کی بنیادی تعلیمات کی روشنی میں کیا جاتا تھا۔
لیکن یہ بحث پھر وہیں پہنچ جاتی ہے کہ پاکستانی طالبان اور ان کے اتحادی، زیر اثر علاقوں میں شریعت نہیں بلکہ شریعت اور پشتونولی کا مرکب بنا کر لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں گیارہ ستمبر سے قبل کے افغان طالبان اور مغربی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے سبب نوساختہ طالبان میں یہی فرق ہے۔ آج اس پورے خطے میں پشتونولی اور طالبان کی پسندیدہ وہابی طرز کی شریعت کے بیچ جھولتے ہوئے، شریعت کی اصل روح اور ترقی پسند پہلو یکسر نظر انداز ہو چکے ہیں اور طالبان کے ایجنڈے میں اس کا دور دور تک نشان نہیں ملتا۔ تاہم یہ طے ہے کہ پاکستانی طالبان پشتونوں کے قبائلی رسم و رواج کی نسبت شریعت کے معاملے میں زیادہ سخت اور کٹر واقع ہوئے ہیں اور یہی خاصیت انہیں افغان طالبان سے الگ کرتی ہے۔ اس خطے میں شریعت کا معاملہ یہ ہے کہ انگریز حکام بھی اپنے دور میں اس کی افادیت کو سراہتے رہے ہیں اور یہاں اسی کے تحت انتظام چلانے پر زور دیتے آئے ہیں۔ 1906ء میں بلوچستان کے برٹش گزیٹیر (فرہنگ جغرافیہ) میں درج ہے:
'بیواؤں کی سماجی حیثیت سر ہوگ بارنز (گورنر جنرل کے پولیٹیکل ایجنٹ) کے مندرجہ ذیل نومبر 1892ء کے ایک مقدمے، لقمان کاکڑ بنام تاج برطانیہ کے فیصلے کے نتیجے میں مضبوط ہوئی ہے:
بیواؤں کا دوبارہ شادی کرنے اور شوہر کے انتخاب سے متعلق یہ ہے کہ قانون محمدی کو ہر صورت مقامی غیر انسانی اور جہالت پر مبنی رواج پر فوقیت دینی چاہیے ۔ اس ضمن میں کسی بھی طرح سے کوئی سمجھوتا قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔ بلوچستان کے بندوبستی اور قبائلی علاقوں میں جہاں بھی تاج برطانیہ کی عدالتوں کے سامنے بیواؤں کی دوبارہ شادی سے متعلق مقدمات پیش ہوں، معزز عدالتوں کو چاہیے کہ وہ قانون محمدی میں فراہم کردہ شرائط کے تحت ہی فیصلہ کریں۔ قانون محمدی بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے اور شوہر کو منتخب کرنے کی مکمل آزادی اور صوابدید عطا کرتا ہے۔ اس طرح کا کوئی بھی مقدمہ جرگے کے حوالے نہ کیا جائے اور اگر ایسا کرنا ضروری ہو تو شرط لاگو کی جائے کہ جرگہ کسی بھی صورت بیوہ کی حق آزادی اور صوابدید پر سمجھوتا نہیں کرے گا اور قانون محمدی کے منافی کوئی فیصلہ کسی صورت اور کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہو گا۔ یہی نہیں بلکہ مقامی جرگہ بیوہ کو وہ تمام حقوق فراہم کرنے کا بھی پابند ہو گا اور ذرہ برابر بھی کاٹ چھانٹ اور تخفیف کا اہل نہ ہو گا جو اسے قانون محمدی کے تحت عطا ہوئے ہیں۔'
برطانوی دور میں، مسلم شریعہ ایکٹ 1937ء لاگو کیا گیا تھا جس کا اطلاق مسلمانوں پر ہوتا تھا۔ اس ضمن میں ریاستی سطح پر مسلمانوں کے لیے تمام مقامی رسوم، رواج اور ضابطے منسوخ کر کے شخصی، شادی بیاہ اور وراثت وغیرہ کے معاملات کو شرعی قوانین کے ساتھ بدل دیا تھا۔ ہندوستان میں انگریزی حکومت نے اس ایکٹ کی توجیہ یہ پیش کی تھی کہ شرعی قوانین، مقامی رسم و رواج پر مبنی ضابطوں کے مقابلے میں جامع اور حتمی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان شرعی قوانین سے معاشرے میں تیقن کی حالت بھی پیدا ہوتی ہے۔ تاہم، اس ضمن میں ایم پی جین نے لکھا ہے:
'مقامی رسوم اور رواج کو منسوخ کرنے کی مضبوط وجہ مسلمانوں میں شرعی قوانین کی مقبولیت تھی۔ اس مقبولیت کی ایک بڑی وجہ شریعت کی رو سے مردوں کا حق وراثت عورتوں کی نسبت زیادہ تھا۔ مقامی رسوم اور رواج کی تنسیخ، جمیعت علمائے ہند (آج کی جمیعت علمائے اسلام کی پیشرو) کی جانب سے مسلسل شورش، ہیجان اور اشتعال کا نتیجہ تھا۔ یہ جماعت کٹر ملاؤں اور سخت گیر مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ جہاں یہ، وہیں اس ضمن میں عورتوں کی کئی مسلمان تنظیموں نے بھی مقامی رسوم اور رواج کو منسوخ کرنے کی حمایت کی کیونکہ مقامی رسم رواج پر مبنی طریقہ کار عورتوں کے حقوق غصب ہونے کا سبب تھے۔'
پاکستان کے پشتون علاقوں میں آج بھی پڑھی لکھی خواتین اپنے حقوق سے متعلق اور اس فرق کے بارے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ مئی 2007ء میں پشاور یونیورسٹی کے ایک ہال میں جامعہ کے طلباء اور طالبات کے ساتھ ایک دلچسپ مکالمہ ہوا۔ اس مکالمے کا موضوع یہ تھا کہ 'کیا طالبان کا تجویز کردہ سخت شریعت کا نظام پشتونولی کی روایات کے منافی ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو پھر ان دونوں میں سے کونسا نظام بہتر ہے؟' مکالمے میں پہلے پہل تو شرکاء کی اکثریت اس بات پر زوردار بحث میں مشغول رہے کہ ان دونوں روایات، یعنی شریعت اور پشتونولی میں کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ تبھی، پشاور یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے دلیل دی کہ 'سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ بحیثیت پشتون، میری روایات اور رواج۔۔۔ چاہے وہ اچھے ہیں یا برے ہیں۔۔۔ پنجاب سے بہرحال مختلف ہیں لیکن شریعت، ایک ہی ہے۔' اس حتمی دلیل پر ہال میں موجود سبھی شرکاء نے حمایت میں خوب تالیاں بجائیں۔
لیکن جب میں نے شریعت یا پشتونولی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر زور دیا اور اس پر ووٹنگ کروائی تو بھرے ہوئے ہال میں بارہ نے پشتونولی اور چودہ نے شریعت کو فوقیت دی جب کہ اکثریت نے سرے سے ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ ہال میں موجود طلباء نے پشتونولی، جبکہ طالبات نے شریعت کو منتخب کیا۔ ظاہر ہے، ان طلباء اور طالبات کو پشتونولی یا شریعت کو فوقیت دینے کے اپنے فیصلے کی تفصیلی وجوہات بیان کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن وہ ووٹنگ سے قبل جاری بحث سے بالکل واضح تھی۔ مغرب سے تعلق رکھنے والوں اور مغربی نظریات کے حامیوں کو شریعت کے تقاضے سخت گیر محسوس ہوتے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان شرعی قوانین میں پشتونولی کی عورتوں سے متعلق سنگدلی اور بے رحمی پر مبنی روایات کو یکسر ممنوع قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر تنازعات کے حل میں عورتوں کے تبادلے کی شریعت میں سختی سے ممانعت ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ساتویں صدی میں قران نے محمد کے ذریعے عرب قبائلیوں کو لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے اور عورتوں کے ساتھ سختی اور زیادتی سے پیش آنے سے منع کیا تھا۔
شریعت کی رو سے عورتوں کو حق وراثت ملنے کی بھی یقین دہانی ہوتی ہے جبکہ پشتونولی میں وراثت صرف مردوں کو منتقل ہوتی ہے اور مردوں کے بیچ ہی تقسیم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح شریعت عورتوں کو طلاق یا بیوگی کی صورت میں حقوق بھی دلاتی ہے۔ شریعت کی یہی ترقی پسند سوچ ہے جس پر متحدہ مجلس عمل (اسلام پسند سیاسی جماعتوں کا اتحاد جس نے صوبہ سرحد میں حکومت بھی قائم کی تھی) کے انفارمیشن سیکرٹری نے اسی شام ملاقات میں بھی زور دیا تھا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ متحدہ مجلس عمل بالعموم اور ان کی جماعت بالخصوص اس خطے میں قبائلی بربریت کی جگہ شرعی ترقی پسند سوچ نافذ کرنے کی حامی ہے۔
اس کے باوجود طالبان جس شریعت کا پرچار کرتے ہیں، اس کے پاکستان بھر میں پھیلنے اور نفاذ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس کی وجوہات وہی ہیں جو طالبان کو پاکستان کا اقتدار اور اختیار کرنے سے بھی روکے ہوئے ہیں۔ان وجوہات میں اول تو یہ ہے کہ ملک کی حکمران اشرافیہ ہر صورت میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے شرعی طریقہ کار کے ساتھ مصلحت پسندی میں کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اشرافیہ اسلامی انقلاب کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جائے گی اور جہاں ضرورت پڑی، ملک میں طالبانی انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے سخت اور پرتشدد آہنی طریقے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔



یوں، لے دے کر آخر ملک میں صرف معتدل اسلام پسند طاقتیں رہ جاتی ہیں جو پاکستان میں شرعی نظام کی وہ صورت نکال سکتی ہیں جیسی کہ ایران کی جدید اسلامی ریاست میں نافذ ہے اور اس دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ایران جیسا شرعی نظام لانا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اسلام پسند جماعتیں اور دھڑے شریعت کی مختلف طرحوں پر یقین رکھتے ہیں اور ملک میں اس کی کونسی شکل نافذ ہو، اس پر رائے عامہ ہموار نہیں ہو سکتا کیونکہ ان گروہوں اور دھڑوں میں اس بابت اتفاق ہی موجود نہیں ہے۔ ایران کا معاملہ برعکس ہے جہاں شیعہ اسلام کی اکثریت ہے اور شریعت کی قسم بابت یک جہتی اور اتفاق پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں سب سے اول تو شیعہ اور سنی منقسم ہیں اور پھر سنی بیسیوں شاخوں میں مزید بٹے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اسلامی انقلاب کی راہ میں حائل ان رکاوٹوں پر اگلے ابواب میں مزید بحث کی جائے گی۔

حالات اتنے تو بدتر نہیں، جس قدر یہ نظر آتے ہیں

پاکستان کی عدالتوں بارے اس سے قبل ابواب کو دوبارہ پڑھا تو محسوس ہوا کہ تصحیح کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کے عدالتی نظام بارے بیان، بالخصوص تعزیزاتی نظام انصاف کا مرکز نگاہ قدرتی طور پر جرائم اور جرائم کی تعزیز سے متعلق ہونا چاہیے۔ زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے عدالتی نظام کا نقشہ کھینچا جائے تو وہ ایسا ہی ہو گا جیسا کہ بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرہ اس سبب ہر وقت انتشار اور افراتفری کے عالم میں تشدد میں گھرا رہتا ہے۔ اس ضمن میں کئی اہم نکات ذہن میں رکھنا لازم ہیں۔ اول تو یہ کہ جرگہ اور پنچایت کا جس نظام انصاف بارے تفصیلاً بات ہو چکی ہے، ان کا میکانیہ ہی معاشرے کو درست راہ پر رکھنے اور معاملات کو تشدد کی جانب بڑھنے سے روکنا ہے۔ عام طور پر جرگے یا پنچایتیں اس مقصد میں کامیاب رہتی ہیں۔ اس ضمن میں، یعنی تشدد کی روک تھام میں مقامی صوفیاء اور ان کے ورثاء کا کردار بھی نہایت اہم ہے جن کا پیغام امن اور شانتی ہی ہے۔ 
جیسا کہ سٹیفن لوہن نے درست سمت میں اشارہ کیا تھا، ہمیں ان معاملات اور جنوب ایشیائی معاشروں کے بارے بالخصوص مبالغہ آرائی اور غلو پر بھی بھرپور نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر دیہی علاقوں میں حالات واقعی اس قدر ابتر ہوتے یا تشدد عام ہوتا تو بقول سٹیفن، 'شاید آج کوئی مرد زندہ نہ ہوتا اور کوئی عورت جنسی زیادتی سے بچی ہوئی نہ ہوتی'۔ سیاسی بنیادوں پر تشدد کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو پاکستان جرائم کی شرح سے نہایت پرامن جگہ ہے، بلکہ کئی یہاں جرائم کا تناسب کئی امریکی شہروں سے بہتر ہے۔ میکسیکو اور برازیل میں جرائم کی شرح کا تو پاکستانی معاشرے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جس قدر غربت ہے، اس لحاظ سے جرائم کی شرح (سیاسی و  مذہبی تشدد اور 'غیرت' کے نام پر جرائم کے سوا) نمایاں طور پر کم ہے۔ 
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں انتہائی با اثر زمیندار اور کاروباری سیاستدانوں کا تسلط ہے جو اگر واقعی ضرورت پڑے تو قتل کرنے کے احکامات جاری کرنے کے بھی تیار رہتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کی یہ حیثیت اور دبدبہ کسی جرم پیشہ گینگ سے تعلق یا ڈراوے پر مبنی نہیں ہے بلکہ انہیں یہ رتبہ وراثت میں ملا ہے۔ جہاں یہ، وہیں ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ مقامی سطح پر عوام کی رائے عامہ کا احترام کرتے ہیں اور کسی بھی معاملے میں اخلاقی طور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ اس طرح 'عزت' کا تصور مزید پختہ ہوتا ہے اور لوگ اسی سبب ان کی رائے کا احترام کرتے ہیں اور معاشرے میں قتل و غارت کا رجحان کم سے کم رہتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کی ایک اور خصوصیت یہاں دوسرے معاشروں جیسے بھارت اور بنگلہ دیش کی نسبت طبقاتی تقسیم حد سے تجاوز نہیں کرتی۔ لیکن طبقاتی تقسیم صرف دوسرے معاشروں سے نسبت کی بناء پر کم ہے، پاکستان کے اپنے معاشرتی تناظر میں یہ اب بھی کافی زیادہ ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کے اکثریتی علاقوں میں قبائل اور سردار وغیرہ گویا خودمختار مسلح دھڑوں کی صورت، اپنی ہی من مانی کرتے پھرتے ہیں لیکن یہی امر تو قرون وسطیٰ کے یورپ بارے بھی درست ہے۔ یورپ نے اسی طرح کی مشکلات کے باوجود وقت کے ساتھ ثقافتی اور معاشی لحاظ سے ترقی کر لی۔ کئی 'جاگیرداروں' اور قبائلی سرداروں کے الفاظ دہراؤں تو زیادہ تر جن مسلح گروہوں کو وہ پالتے ہیں، ان کا مقصد جنگ و جدل نہیں بلکہ لڑائی اور جھگڑے کو روکنا ہے۔ ان مسلح گروہوں کی مدد سے وہ دوسروں کو اپنی طاقت دکھاتے ہیں، ایسی طاقت جس سے کسی کو بھڑنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ یوں، خلاف قیاس تشدد کا استعمال بجائے کمزوری بن جن جاتا ہے اور اس سے ان جاگیرداروں اور سرداروں میں ضبط نفس اور خود پر قابو رکھنے کی صلاحیت کی کمی بھی ظاہر ہوتی ہے، جو ان کے لیے کسی صورت سود مند نہیں ہے۔ ظاہر ہے، تشدد سے گریز اور خود کو قابو میں رکھنے کے نتائج بہادری اور شجاعت کے پیمانوں پر پورے نہیں اترتے لیکن اس کا فائدہ دوررس ہوتا ہے۔ اگر کوئی سردار یا جاگیردار اپنے آپ پر قابو رکھنا نہ جانتا ہو یا ہر معاملے میں تشدد کا سہارا لے تو نتائج اس کی اپنی حیثیت، خاندان اور برادری کی عزت اور نیک نامی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ریاست بھی ایسوں کو سبق سکھانا جانتی ہے۔
پولیس اور عدالتوں کی حالت کا جو نقشہ اب تک کھینچا گیا ہے، یہی صورتحال بھارت کے تقریباً حصوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ بلکہ وہاں تو ذات پات کی تقسیم کی وجہ سے تو پولیس سے متعلق حالات اور بھی بدتر ہیں۔ یہی بات مقامی رسوم اور رواج کے اطلاق بارے بھی صادق آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب میں (سوائے شریعت کے) ہر نکتے کو نہایت آسانی کے ساتھ 'پاکستانی'، 'بھارتی' اور 'جنوب ایشیائی' لبادہ اوڑھا سکتا ہوں اور یہ واقعاتی شواہد کی روشنی میں غلط بھی نہیں ہو گا۔ 
بھارتی آبادی کے ایک بڑے حصے کے لیے اس طرح کے حالات خوفناک نتائج برآمد کرتے رہتے ہیں اور اس خطے سے متعلق انہی حقائق کا نتیجہ ہے کہ بھارت کے دیہی علاقوں میں نچلی ذات کی آبادیوں اور قبائلی مزارعین کے یہاں ماؤ باغیوں کی تحریک خاصی تیزی سے مقبول ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارتی ریاست مجموعی طور پر حالیہ دور میں معاشی ترقی کی دوڑ میں خاصی آگے نکل چکی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے معاشروں میں فرق یہ ہے کہ بھارت میں عوام کے پاس ثقافتی لحاظ سے جدید ریاست اور عدالتی نظام کا متبادل نہیں ہے  جو موجودہ ریاستی ڈھانچے کو تہہ تیغ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ پاکستان میں، حالات دوسرے ہیں۔ آبادی کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اگر جدید ریاست کے تصورات اور اسی جدید ریاست کے عدالتی نظام کو ترک بھی کر دیا جائے تو اسلام کا صدیوں پرانا طریق اور آج کے دور کا اجتہاد و قیاس پر مبنی شرعی نظام متبادل کے طور پر موجود ہے۔ اسی لیے شریعت اور شریعت کے مطابق زندگی اور معاشرے کا ہر ہر پہلو، اس کتاب کے اگلے باب کا موضوع بھی ہے۔


سرورق: ضلع سوات کے علاقے مٹہ میں طالبان کا مرکز / روزنامہ ڈان / 2007ء


اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مینڈک اور بچھو

اول المسلمین کے بعد - محمدؐ - 1

ٹھنڈا تارا