ہم اہل دل کو اگر مات ہو گئی پیارے۔۔۔

یہ جو شاعر ہوتے ہیں۔۔۔ ہر ایرا غیرا نہیں بلکہ یہ جو اچھے شاعر ہوتے ہیں، آخر کار ہمارے شاعر بن جاتے ہیں۔ اب جون ایلیا کی ہی مثال لے لیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی ان سے نالاں ہیں لیکن یہ وہی کہہ گزرے ہیں کہ زندگی میں خوش رہنے کے لئیے بہت زیادہ ہمت بلکہ بہت زیادہ بے حسی چاہئیے۔
اسی لیے جون ایلیا ساری عمر جل بھن کر، سڑ سڑ کر جیے کہ شاید وہ بے حس نہیں تھے۔ ایک اچھے شاعر کی خاصیت ہے کہ وہ حساس ہوا کرے۔ اسے احساس نام کی چڑیا سے جی لگانا پڑتا ہے۔ اسے گھٹ گھٹ کر جینا پڑتا ہے، تبھی تو اچھی شاعری جنم لیتی ہے۔ نزول ہوتا ہے، لفظ جڑتے ہیں اور مانند لڑیوں میں موتی پروے جاتے ہیں۔ شعر کہے جاتے ہیں۔
اچھے شعر کو داد دینی چاہیے۔ اس سے جی نہیں لگانا چاہیے ورنہ بڑا مسئلہ ہو جاتا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا بلکہ یوں کہیے کہ کسی مشہور شخص کا کہا پڑھا تھا کہ شاعری سے دور رہو، بالخصوص اچھی شاعری سے تو کوسوں دور رہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اچھے شعروں میں یہ گن ہوتا ہے کہ وہ ایسی ایسی کیفیات سے آشنا کروا دیتے ہیں جو حقیقت میں کبھی طاری ہی نہیں ہوئیں۔ شعر، محبت میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ ایک مرتے ہوئے آدمی کا نزع محسوس کر سکتے ہیں اور بھوک میں گھٹ گھٹ کر جیتے ہوئے بچے کی کیفیت آپ کے بھرے پیٹ میں افلاس کے مروڑ اٹھا دیتی ہے۔۔۔ اسی لیے، میں نے نظمیں کبھی غور سے نہیں پڑھیں اور غزلوں کو تب سے پڑھنا چھوڑ دیا، جب سے ان کے شعر مڑ مڑ چہرے پر تھپڑوں کی طرح برستے ہیں۔
بھلے لوگو، تم بھی شاعری سے دور رہا کرو۔۔۔ یہ تمھارے تخیل کو وہاں پہنچا سکتی ہے جہاں سے مڑ کر واپس آنا دشوار ہو جاتا ہے۔ یاد رکھو، تمھارا تخیل کوئی بلی نہیں ہے کہ جسے جتنی دور چھوڑ کر آؤ۔۔۔ وہ واپس اپنے گھر لوٹ آئے گی۔ تخیل تو بھئی، ایک دفعہ اڑان بھر لے۔۔۔ پھر کس نے لوٹتے دیکھا ہے؟ ایسی ایسی جگہ بسیرا کر لیتا ہے کہ جہاں سوچ کی چڑیاں بھی کبھی پر نہ ماریں۔۔۔
لیکن اب پہلے سے خاصی مشکل ہو گئی ہے۔ پہلے پہل، شاعری تخیل کو با آسانی دوڑا دیا کرتی تھی۔ اب اس کی حاجت ہی نہیں رہی۔ موبائل فون نے سب تہس نہس کر دیا ہے۔ کیمروں سے چھکا چھک تصاویر بنتی ہیں اور فوراً انٹرنیٹ اور میگزینوں کا پیٹ بھر دیتی ہیں۔ اب لوگوں کے تخیل کو شاعری نہیں بلکہ ساکت اور محرک تصاویر بھڑکاتی ہیں۔ یہ وہ دور ہے کہ اب ضمیر کو سوچ نہیں بلکہ ٹینک کے سامنے کھڑا نہتا شخص، فوجیوں کو مکے دکھاتی لڑکیاں، ساحل پر بہہ کر آنے والی آلان کی لاش اور پیلٹ گولیوں سے داغ دار گالوں کی تصاویر جھنجھوڑتی ہیں۔۔۔۔ بلکہ، اب تو تصویروں کو دیکھ دیکھ ان پر شاعری لکھی جاتی ہے۔ کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔۔۔ پہلے پہل تخیل سے نکلی شاعری پر تصاویر بنتی تھیں، اب تصویروں پر شعر کسے جاتے ہیں۔
تصاویر سے یاد آیا، آج سولہ دسمبر ہے۔ کل ہی ایک ٹویٹ نظر سے گزری۔ اس ٹویٹ میں لکھا تھا، 'کل سولہ دسمبر ہے۔۔۔ خدارا، تصاویر شئیر کرنے سے گریز کریں'۔ مجھے یقین ہے کہ ہر آدمی کی طرح ان صاحب کا بھی سولہ دسمبر کی تصاویر دیکھ کر دل دہل جاتا ہو گا۔۔۔ لیکن مجھے ایسا بھی لگتا ہے کہ پانچ برس گزرنے کے بعد، اب ہم سولہ دسمبر کی تصاویر دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمارے دہل تو دہلتے ہی ہیں۔۔۔ اب شرمندگی بھی ہوتی ہے۔ ہم دہل کر تو جی سکتے ہیں لیکن حضور، خدارا تصاویر شئیر مت کیجیے کیونکہ ہم توغیرت کے مارے لوگ بھی ہیں۔ ہماری غیرت گوارا نہیں کر سکتی کہ ہم سولہ دسمبر کی تصاویر دیکھا کریں اور چلو بھر پانی میں ڈوب جانے کا دل ہوا کرے۔۔۔ غیرت کو کیسے مار دیں؟ یا کیا پتہ؟ اب تصاویر بھی ہمیں جھنجھوڑنے سے قاصر ہیں۔
رہی بات شاعری کی؟ میں نے سولہ دسمبر کی تصاویر پر لکھی شاعری بھی پڑھ رکھی ہے اور بہت پڑھی ہے۔ اچھے اچھے شاعروں نے شعر باندھے ہیں اور خوب باندھے ہیں۔ اتنے اچھے اچھے شعر ہیں کہ کیا بتاؤں؟ اگر تصاویر دیکھ کر دل دہل جاتا ہے تو وہ شعر پڑھ کر تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ تخیل اڑان نہیں بھرتا بلکہ جیسے کسی پاتال میں نیچے ہی نیچے گرتا چلا جاتا ہے۔
لیکن پتہ کیا؟ ہمارے بچے ہیں۔ وہ بچے تخیل میں نہیں ہیں۔۔۔ وہ بچے حقیقت ہیں۔ وہ بچے، مجھ ایسے زندگی کے ماروں کا سہارا ہیں۔ ہماری حقیقی خوشی ہیں۔ میں سولہ دسمبر کی تصاویر سے کنی کر سکتا ہوں، سولہ دسمبر پر لکھی شاعری سے منہ بھی موڑ سکتا ہوں لیکن اپنے بچوں سے نظریں نہیں چرا سکتا۔
میں خود غرض ضرور ہوں لیکن عجیب و غریب بھی ہوں۔ مجھے بتاتے شرم آتی ہے لیکن کیا بتاؤں؟ مجھے تو اکثر اپنے بچوں کے بارے سولہ دسمبر جیسے ہولناک خیال آتے ہیں۔۔۔ لیکن سوچ کی چڑیا جیسے پھڑپھڑا کر مر جاتی ہے۔ تخیل جواب دے جاتا ہے۔ ایسی کوئی تصویر، کوئی شعر ہے ہی نہیں کہ جو میرے اس خیال کو پروان دے سکے۔۔۔ اس خوفناک خیال کو ئی شے ایسی نہیں جو پکڑ سکے۔ اس کا احاطہ کر سکے۔ ایسے میں مجھے ایک جھرجھری کے سوا کچھ نہیں سوجھتا ، جیسے سولہ دسمبر کے مارے ایک باپ کو سامنے دیکھ کر خاموشی کے سوا کچھ سوجھا ہی نہیں تھا۔
ایسے میں، جھرجھری اور کچھ دیر کی خاموشی کے فورا بعد۔۔۔ بالکل اگلے ہی لمحے، چونکہ اس دنیا میں جینا ہے تو بقول ایک اچھے اور ہمارے اپنے شاعر، جون ایلیا۔۔۔ زندگی میں خوش رہنے کے لیے بے پناہ ہمت بچھاتا ہوں اور بے حسی کی چادر اوڑھ لیتا ہوں۔ آخر، اس دنیا میں خوشی سے جینے کے لیے ہمت اور بے حسی ہی تو درکار ہے۔ صاحبو، خدا جون ایلیا کو غارت کرے، اس نے ہمیں یہ کیسا گر سکھا دیا ہے؟ ان موے شاعروں، بلخصوص اچھے شاعروں سے دور رہنا چاہیے تھا۔ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ہے لیکن ہم خاصے بے حس واقع ہوئے ہیں۔ اس کے بل بوتے پر ہم زندگی میں بہت خوش رہ سکتے ہیں۔ ابھی کچھ ماہ قبل خبر آئی تھی کہ ہم خوش رہنے والی اقوام کے درجے میں کافی اوپر ہیں۔۔۔ کئی ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملکوں سے کافی آگے ہیں۔ ہم جیتے جاگتے آدمیوں کو تو جلا دیتے ہیں لیکن ایسی بے حسی پر مبنی خوش کن زندگی کو کوئی آگ کیوں نہیں لگاتا؟

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مینڈک اور بچھو

اول المسلمین کے بعد - محمدؐ - 1

ٹھنڈا تارا