مینڈک اور بچھو

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ایک بچھو دریا پار کرنا چاہتا تھا چنانچہ اس نے ایک مینڈک سے مدد مانگی۔ 'مجھے خوشی ہو گی۔۔۔' مینڈک نے کہا، 'لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے تمھیں پیٹھ پر چڑھایا تو تم ڈنگ مار دو گے!' 'ارے، میں ایسا کیوں کروں گا؟' بچھو نے تسلی دیتے ہوئے کہا، 'میں ڈنگ ماروں گا تو ہم دونوں ہی مر جائیں گے؟' اس پر مینڈک کی تسلی ہو گئی۔ اس نے بچھو کو اپنی پیٹھ پر لاد دیا۔ وہ دونوں دریا کے پانی میں تیرنے لگے۔ جب دریا کے وسط میں پہنچ گئے تو بچھو نے زور سے مینڈک کی پیٹھ پر ڈنگ مار دیا۔ مینڈک چیخ اٹھا، 'تم نے ایسا کیوں کیا؟ اب ہم دونوں ہی مر جائیں گے'۔ 'ڈنگ مارنا تو میری فطرت ہے۔۔۔' بچھو نے کہا۔ اب وہ دونوں ہی گہرے پانی میں ڈوبنے لگے۔ ان کی قسمت میں دریا کے گدلے پانی کی گہرائیوں میں کیچڑ کی قبروں میں دفن ہو جانا لکھا جا چکا تھا۔ یہ دونوں ہی عام تھے۔ عام سے بچھو اور اس سے بھی عامی مینڈک کے اس طور خاتمے پر کسی کو خوشی اور نہ ہی افسوس ہوتا بلکہ کسی کو خبر بھی نہ ہوتی۔ ان کی دنیا یہیں پر۔۔۔۔ 'ارے رکو۔۔۔' مرتے ہوئے مینڈک نے چلا کر داستان گو ...